جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال کو چیئرمین نیب مقرر کردیا گیا،وزارت قانون نے جسٹس(ر) جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا، جسٹس(ر)جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی 4 سال کےلئے ہے، اپوزیشن کے تجویز کردہ جاوید اقبال سینئر جج سپریم کورٹ رہ چکے ہیں،دو تین ناموں پر بات چیت کے بعد جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنانے پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوگیا،قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کا نام سب کی مشاورت سے طے ہوا، آنے والے وقت میں چیئرمین نیب کا عہدہ بہت اہم ہے
نئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال یکم اگست 1936 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1971 میں پبلک پراسیکیوٹر کا عہدہ سنبھالا۔ 1981 میں محکمہ قانون میں ڈپٹی سیکرٹری اور 1982 میں بحیثیت قائم مقام سیکرٹری فرائض سرانجام دیئے، 1982 میں بطور سیشن جج عدالتی کیریئر کا آغاز کیا، وہ 1990 سے 93 کے دوران ہائی کورٹ کے رجسٹرار رہے اور اسی سال ہائی کورٹ کے جج بھی بن گئے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے1999 میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور 4 فروری 2000 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے،28 اپریل 2000 کو جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد جسٹس جاوید اقبال نے بطورچیف جسٹس بھی فرائض سرانجام دیئے تاہم انہوں نے نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد حلف لینے سے انکارکردیا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال 24 جولائی 2011 کو ریٹائر ہوئے اور انہوں نے ایبٹ آباد کمشن اور لاپتہ افراد کمشن کی سربراہی بھی کی۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال فروری 2000 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے دو ماہ کے بعد انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سپریم کورٹ کے اس بینچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق درخواستوں کے بارے میں حکم دیا تاہم اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ جب تک پرویز مشرف اپنی وردی نہیں اتاریں گے جس کا انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا، اس وقت تک الیکشن کمشن ان انتخابات کا اعلان نہیں کرے گا۔ اس کے بعد مشرف نے ایمرجنسی لگا دی تھی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال اس 7 رکنی بنچ کاحصہ تھے جس نے ایمرجنسی کے بعد حکم دیا تھا کہ انتظامیہ ان احکامات کو تسلیم نہ کرے اور کوئی جج عبوری حکم نامے کے تحت حلف نہ اٹھائے۔