آسیہ توہین رسالت کے الزام سے بری، گواہوں کے بیانات میں تضاد،نبیؐ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت، سپریم کورٹ
اسلام آباد ( رپورٹ / رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے استغاثہ کی کمزوری اور شہادتوں میں تضاد ات کی بناء پر توہین رسالت کے مشہور مقدمہ کی ملزمہ آسیہ بی بی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی اپیل منظور کرلی ہے اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے اسکی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر آسیہ بی بی پولیس کوکسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں تواسے جیل سے رہا کر دیا جائے۔ فیصلے میں کہاگیاہےکہ گواہوں کے بیانات میں تضادہے، نبی ﷺ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت ہے، ایف آئی آر وقوع کے 5؍ دن بعد درج ہوئی، 35؍ افراد موجود تھے، گواہی صرف 2؍ بہنوں نے دی، دبائو پر اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تفتیشی نے اپنی صفائی کیلئے آسیہ کو بائبل پر قسم اٹھانے کی اجازت نہیں دی، کسی کو پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کرنیوالا سزا سے بچ سکتا ہے، بعض عناصر ذاتی مفادات کیلئے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں ، منصفانہ
ٹرائل کے ذریعے جرم ثابت ہونے تک ہر شخص بے قصور تصور کیا جاتا ہے، بعض شخصیات کو بھی توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی حقیقت اُجاگر کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑے ، سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ، کسی شخص کو حاصل نہیں ۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے بدھ کے روز کھلی عدالت میں ضلع ننکانہ صاحب کے توہین رسالت کے مشہور مقدمہ کافیصلہ جاری کردیاہے ، 32صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے تحریر کیاہے، انہوںنے کھلی عدالت میں اس کا آپریٹنگ پارٹ پڑھ کرسنایاجبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 24 صفحات پر مشتمل اتفاق رائے پر مبنی علیحدہ نوٹ بھی تحریر کیا ہے ، عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ نے 8؍ اکتوبر2018ء کو ملزمہ آسیہ بی بی کی لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے فیصلے کیخلاف ا پیل پر تقریباً پونے تین گھنٹے تک سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ، فیصلے کے مطابق آسیہ بی بی کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے اسے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت سے ملنے والی سزائے موت اور اس سزا کو برقرار رکھنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمہ آسیہ بی بی کو تمام تر الزامات سے بری کیا جاتا ہے اور اگر یہ کسی اور مقدمہ میں پولیس کو مطلوب نہیں ہے تواسے جیل سے رہا کر دیا جائے ، فیصلے میں کہاگیاہےکہ گواہوں کے بیانات میں تضادہے، نبیؐ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت ہے، ایف آئی آر وقوع کے 5؍ دن بعد درج ہوئی، 35؍ افراد موجود تھے، گواہی صرف 2؍ بہنوں نے دی، دبائو پر اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تفتیشی نے اپنی صفائی کیلئے آسیہ کو بائبل پر قسم اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ فاضل عدالت نے فیصلے میں تحریرکیا ہے کہ کسی کو بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کرنے والا سزا سے بچ سکتا ہے، لیکن ایسے معاملات کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ بعض عناصر ذاتی مفادات کیلئے اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے دوسروںپر توہین رسالت یا توہین ِ مذہب کا جھوٹا الزام بھی عائد کردیتے ہیں۔ فاضل عدالت نے لکھا ہے کہ 1990ء سے اب تک تو ہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے ملک میں 62؍ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکاہے جبکہ بعض ممتاز شخصیات کو بھی توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی حقیقت کو اجاگر کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑے ہیں، عدالت نے اپنے فیصلےمیں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہین رسالت کے الزام میں ساتھی طلبہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کے کیس کا ذکر بھی کیا ہے، عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس حوالے سے ایوب مسیح کا کیس بھی قابلِ ذکر ہے۔ فاضل عدالت نے تحریر کیا ہے کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام دیگر انسانوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے اور برداشت کا سبق دیتا ہے،اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک منصفانہ ٹرائل کے ذریعے کسی کیخلاف جرم ثابت نہیں ہوتا، اس وقت تک ہر شخص بے قصور تصور کیا جاتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، رنگ اور نسل سے ہی کیوں نہ ہو، عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی کو سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے اور کسی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 24؍ صفحات پر مشتمل اتفاقی رائے پر مبنی علیحدہ نوٹ میں تحریر کیاہے کہ استغاثہ کی جانب سے دی گئی شہادتوںمیں موجود سنگین تضادات کے تناظر میںیہ یکساں طور پر معقول محسوس ہوتا ہے کہ اپیل گزار اور اس کی مسلم ساتھی خواتین کے مابین جائے وقوع پر جھگڑا ہوا تھاجس میں اپیل گزار نے کسی قسم کے کوئی توہین آمیز الفاظ ادا نہیں کئے،مسلم خواتین نے جھگڑے کی اطلاع دیگر افراد کودی تھی ،جنہوںنے پانچ دن کے طویل عرصہ تک اس پر غور و فکر اور منصوبہ بندی کی اور اپیل گزارکیخلاف توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے کا فیصلہ کیا،اگر ایسا تھا تومقدمہ ہذا کے مسلمان گواہوں نے ہمارے پیارے نبی ﷺ ۖکے عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کئے گئے میثاق کی خلاف ورزی کی ہے۔