اپنے اپنے مفاد ، اپنی اپنی سیاست!
ہر فیصلے میں تاخیر، قدم قدم پر سمجھوتے، کسی واقعے، سانحے سے کچھ نہ سیکھنا، اپنے اپنے مفاد، اپنی اپنی سیاست، یہی ہونا تھا، یہی ہوتا رہے گا۔
مقدمے کا پس منظر، لاہور سے 50کلومیٹر دور، ضلع ننکانہ کے گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی مسیحی برادری کی آسیہ بی بی کا 2009ء میں گاؤں کی عورتوں سے جھگڑا ہونا، اس کا مبینہ طور پر حضورؐ کے حوالے سے 3توہین آمیز کلمات ادا کرنا، ان عورتوں کا گاؤں کے امام مسجد قاری اسلام کو بتانا، چند روز بعد ایک مبینہ اجتماع ہونا، آسیہ کا مبینہ طور پر خود پر لگائے جانے والے الزامات کو مان کر معافی مانگنا، گاؤں والوں کا پولیس کے حوالے کر دینا، دفعہ 295کے تحت مقدمہ درج ہونا، 2010میں سیشن عدالت کا سزائے موت سنانا، 2014میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنا، 2015میں معاملہ سپریم کورٹ آنا، 31اکتوبر 2018کو سپریم کورٹ کا آسیہ کو بری کر دینا، اسی دوران یہ بھی ہو جانا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا 22نومبر2010 کو جیل میں آسیہ سے ملنا، پریس کانفرنس کرنا، چار جنوری 2011کو ممتاز قادری کا سلمان تاثیر کو قتل کرنا اور 29فروری 2016کو ممتاز قادری کو پھانسی ہو جانا۔
اب آیئے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر، عدالت عظمیٰ کے مطابق استغاثہ الزام ثابت نہیں کر سکا، بڑی وجہ گواہوں کے بیانات میں تضاد، جیسے کس نے شکایت گزار قاری اسلام کو واقعہ کی اطلاع دی، ایف آئی آر کے مطابق واقعہ کی اطلاع اسماء، معافیہ اور یاسمین نے قاری اسلام کو دی، معافیہ کا ابتدائی بیان ’’میں نے قاری اسلام ودیگر کو اطلاع دی‘‘ معافیہ کا حتمی بیان ’’واقعہ کی اطلاع میری بہن نے قاری اسلام کو دی‘‘دوسری گواہ اسماء بتائے ’’جب میں نے واقعہ کی اطلاع قاری اسلام کو دی تو وہاں محمد افضل اور محمد مختار بھی موجود تھے‘‘ محمد افضل سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’مجھے تو معافیہ، اسماء، یاسمین اور قاری اسلام نے گھر آکر واقعے کی اطلاع دی‘‘ اور قاری اسلام کہے ’’میں محمد افضل، مختار کے ساتھ بیٹھا تھا جب اسماء، معافیہ اور یاسمین تینوں نے آکر بتایا‘‘۔
الزام لگنے پر جو مبینہ عوامی اجتماع ہوا، جس میں آسیہ نے مبینہ طور پر اقرارِ جرم کیا، اس میں کتنے لوگ تھے، ایک گواہ کہے اجتماع 5مرلے کے گھر میں ہوا، 100لوگ موجود تھے، دوسرا گواہ بتائے اجتماع میں ہزار لوگ تھے، تیسرے گواہ نے کہا دو ہزار سے زائد لوگ تھے، چوتھے گواہ کے مطابق دو ڈھائی سو لوگ تھے، اجتماع کہاں ہوا، ایک گواہ کہے، مختار احمد کے گھر پر ہوا، دوسرے گواہ نے بیان دیا، اجتماع اس کے والد عبدالستار کے گھر پر ہوا، تیسرے گواہ نے کہا، اجتماع رانا عبدالرزاق کے گھر پر ہوا، چوتھا گواہ بولا، اجتماع مختار احمد کے گھر پر ہوا، آسیہ کو عوامی اجتماع میں کون لایا، ایک گواہ نے کہا کہ اسے یاد نہیں کون لایا، دوسرے گواہ نے کہا گاؤں والوں کے بلانے پر آسیہ پیدل چل کر آئی، تیسرے گواہ نے کہا مشتاق احمد آسیہ کو عوامی اجتماع میں لایا، قاری اسلام نے کہا کہ گائوں کے لوگ آسیہ کے گھر گئے اور اسے دو موٹر سائیکلوں پر لائے، عدالتی فیصلے کے مطابق شکایت گزار قاری اسلام اور گواہوں کے بیانات میں بھی تضاد، گواہوں کا کہنا ہم نے واقعہ کی اطلاع قاری اسلام کو 14جون 2009کو دی جبکہ قاری اسلام کہے اسے واقعہ کے بارے میں 16جون 2009کو پتا چلا، پھر واقعے کی گواہ دونوں بہنوں کا نہ بتا سکنا کہ جب آسیہ نے توہین آمیز کلمات کہے تو مخاطب کون تھا، دونوں بہنوں کا خود مقدمے کا مدعی نہ بننا، دونوں کا یہ کہہ دینا کہ ہمارا تو آسیہ سے جھگڑا ہوا اور نہ تلخ جملوں کا تبادلہ، واقعے کے پانچ روز بعد ایف آئی آر کا درج ہونا اور فالسے کے کھیت کے مالک محمد ادریس کا ابتدائی تفتیش میں غائب رہ کر ایف آئی آر درج ہونے کے 15اور واقعے کے 20دن بعد بیان دینا، سب کچھ مشکوک۔
یہ تو چند نکات، کلمہ ٔ شہادت سے شروع ہوا 57صفحات کا وہ فیصلہ جس میں ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر بھی سوالات اُٹھائے گئے، پڑھنے کے قابل، ضرور پڑھیں، بلاشبہ حرمت رسولؐ پر جان قربان، ہمارے ایمان کا تقاضا کہ اللہ اور رسولؐ سے محبت ہر شے سے زیادہ ہو، بے شک توہین رسالت کا مرتکب قرار واقعی سزا کا مستحق، لیکن جہاں یہ اک حقیقت کہ عدالت فیصلہ دے ثبوتوں، گواہوں پر، وہاں یہ بھی حقیقت کہ اسلامی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج صاحبان جو رسول پاکؐ سے اُتنی ہی محبت کریں جتنی کوئی دوسرا مسلمان، وہ بھلا کیوں دنیا اور آخرت کا سودا کر کے غلط فیصلہ دیں گے، جہاں یہ اک حقیقت کہ یہ عدالت کا فیصلہ اور سب نے سن رکھا کہ فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف بھی آجائے تو وہ قبول کر لیں، وہاں یہ بھی حقیقت کہ یہ معاملہ رسولؐ سے محبت کا، رسولؐ سے محبت کا مطلب رسولؐ کی مکمل پیروی اور رسولؐ فرمائیں ’’اسلام اعتدال، میانہ روی کا نام، مومن وہ جس کے ہاتھ، زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، مومن کسی پر لعن طعن کرے نہ بد دعا دے، کامل ایمان اس کا، جس کا اخلاق اچھا‘‘ اب رسولؐ کے ان فرمودات کو سامنے رکھیں اور رسولؐ سے محبت کے نام پر جو ہوا، اسے دیکھ لیں، کیا رسولؐ کی یہی تعلیمات، کیا اسلام جلاؤ، گھیراؤ، مارپیٹ، گالم گلوچ، سڑکوں، چوکوں کی بندش کی اجازت دے، کیا فلاں کافر، فلاں واجب القتل اور فلاں مجرم، یہ کہنا اسلام، کیا مُردوں پر سلامتی بھیجنے والے دین میں زندہ لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دینا جائز۔
اچھی بات کہ کسی بڑے حادثے، سانحے ہوئے بنا معاملہ حل ہوا، لیکن جہاں پوچھنا یہ کہ کتنے احتجاجی جنہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل پڑھا اور کیا دمادم مست قلندر سے پہلے review پٹیشن سمیت آئینی آپشنز نہیں آزما لینے چاہئے تھے، وہاں سوال یہ بھی کہ یہ ایک آئینی معاملہ، ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت کا فیصلہ، کیا آئین بنانے والے مولانا مودودی کے جانشین سراج الحق اور مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمن کو نازک ترین لمحوں میں سیاست کرنا چاہئے تھی، جہاں حیرت اس پر بھی کہ حکومت کو کیوں خیال نہ آیا کہ اگر یہ فیصلہ آ گیا تو کچھ پیشگی اقدامات بھی ہونے چاہئیں، فیصلے اور وزیراعظم کی تقریر کے بعد سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے رہے، وہاں ایک بار پھر لگ یہی رہا کہ معاہدے کی آڑ میں سرکاری و عوامی نقصان، قتل کے فتوئوں، بغاوت اور سول نافرمانی سمیت سب کچھ ہضم کر لیا جائے گا، مطلب ایک اور ڈیل، ایک اور ڈھیل، مطلب یہ طے ہوا کہ ریاست سے نہ ٹکرانا ورنہ ریاست پاؤں پڑ جائے گی، رہ گئی بات قانون نافذ کرنے والے اداروں کی، کیا دکھی ہونا، کوئی ادارہ نہ رہا جو اپنے قدموں پر، جس میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت، نالہ لئی طغیانی سے سیلاب، زلزلوں تک اور مردم شماری سے انتخابات کرانے تک ایک فوج ہی رہ گئی کام کرنے کیلئے، جہاں تک تعلق پولیس کا، تو پچھلے دس سالوں میں پولیس کا تو حشر نشر ہی ہو چکا، پولیس سیاست زدہ، بڑوں کی ذاتی محافظ، نہ ٹریننگ، نہ capabilityلیکن اصل بات وہی کہ ہر فیصلے میں تاخیر، قدم قدم پر سمجھوتے، کسی سانحے، واقعے سے کچھ نہ سیکھنا، اپنے اپنے مفادات، اپنی اپنی سیاست، لہٰذا یہی ہونا تھا، یہی ہوتا رہے گا۔